اب کہو اس شہر نا پرساں سے کیدھر جایئے
کام دل کا کچھ ٹھکانا ہی نہیں کیونکر بنے
آیئے تاچند ناامید پھر کر جایئے
مضطرب اس آستاں سے اٹھ کے کچھ پایا نہ رو
منھ رہا ہے کیا جو پھر اب اس کے در پر جایئے
بعد طوف قیس ہو جے زائر فرہاد بھی
دشت سے اٹھے تو کوہوں میں مقرر جایئے
شوق تھا جو یار کے کوچے ہمیں لایا تھا میرؔ
پاؤں میں طاقت کہاں اتنی کہ اب گھر جایئے