اُداسی ٹھہر جاتی ہے

اُداسی ٹھہر جاتی ہے
اداسی کا اگرچہ اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا
مگر جب بھی نگاہوں میں
گزر گاہوں کا سونا پن کھٹکتا ہے
کسی کے عکس میں ڈوبی ہوئی آنکھیں کبھی جو بارشوں کا ساتھ دیتی ہیں
سفر کی شب ، اکیلے پن کا گہرا رنگ
جب ویران دہلیزوں کی پھیکی زردیوں پر پھیل جاتا ہے
مسافر کو مگر پھر بھی کوئی پرسہ نہیں دیتا
اداسی ٹھہر جاتی ہے
گئے موسم
پلٹ کے یاد کے دھندلے دریچوں پر
ادھوری دستکوں کا شک بٹھا جاتے ہیں
سردی سانس کے تن من میں بس جاتی ہے
سینے میں کوئی لمحہ اتر کر ٹوٹ جاتا ہے
کبھی مدت کے پردیسی
اگر اپنے نہ آنے کا کوئی پیغام بھیجیں
اور مکانوں پر لکھی امید بینائی گنوا بیٹھے
چھتوں پر بانجھ پن کا دکھ اتر آئے، اداسی ٹھہر جاتی ہے
کبھی بچھڑے ہوؤں کا دکھ
کسی بھی شام کی ویرانیوں سے لگ کے روتا ہے
شبیں بے آرزو ہو کر خموشی اوڑھ لیتی ہیں
کبھی جب دل کی نازک تار سے لکھا گیا کوئی خط
کہیں رستے میں کھو جائے
یا خط کی منتظر خواہش کو کوئی روگ لگ جائے
جہاں موقع نکل آئے
جہاں صورت بنے غم کی
جہاں بے رونقی کا کوئی بھی پہلو نکلتا ہو
وہیں خیمہ لگاتی ہے
اداسی ٹھہر جاتی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *