مہر قیامت چاہت آفت فتنہ فساد بلا ہے عشق

مہر قیامت چاہت آفت فتنہ فساد بلا ہے عشق
عشق اللہ صیاد انھیں کہیو جن لوگوں نے کیا ہے عشق
عشق سے نظم کل ہے یعنی عشق کوئی ناظم ہے خوب
ہر شے یاں پیدا جو ہوئی ہے موزوں کر لایا ہے عشق
عشق ہے باطن اس ظاہر کا ظاہر باطن عشق ہے سب
اودھر عشق ہے عالم بالا ایدھر کو دنیا ہے عشق
دائر سائر ہے یہ جہاں میں جہاں تہاں متصرف ہے
عشق کہیں ہے دل میں پنہاں اور کہیں پیدا ہے عشق
موج زنی ہے میرؔ فلک تک ہر لجہ ہے طوفاں زا
سرتا سر ہے تلاطم جس کا وہ اعظم دریا ہے عشق
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *