کیا خبر تھی نہ ملنے کے نئے اسباب کر دیگا

کیا خبر تھی نہ ملنے کے نئے اسباب کر دیگا
وہ کر کے خواب کا وعدہ مجھے بے خواب کر دیگا
کسی دن دیکھنا وہ آ کے میری کشت ویراں پر
اچٹتی سی ڈالے گا اور شاداب کر دیگا
وہ اپنا حق سمجھ کر بھول جائیگا ہر احساں
پھر اس رسمِ انا کو داخل آداب کر دیگا
نہ کرنا زعم اس کا طرز استدلال یہ ہے
کہ نقش سنگ کو تحریر موج آب کر دیگا
اسیر اپنے خیالوں کا بنا کر ایک دن محسن
خبر کیا تھی میرے لیے کامیاب کر دیگا
محسن بھوپالی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *