آزادی

آزادی
اپنے ہاتھوں اجڑ رہا ہے چمن
دل ما شاد و چشم ما روشن
بڑھ گئی اور چاک دامانی
جب سے حاصل ہیں رشتہ و سوزن
نہیں ہر گز مآل فصل بہار
گل کی بیجا ہنسی کا پھیکا پن
اب خزاں کو نہ دے کوئی الزام
جل رہا ہے بہار میں گلشن
نظم فطرت یہ کیا قیامت ہے
چاندنی رات اور چاند گہن
ہم نے بخشے چراغ محفل کو
رگ جاں سے فتیلہ و روغن
اور دونوں ہیں شام سے تاریک
تیرا آنگن ہو یا مرا آنگن
نغمہء حال ہے یہ دل! یا ہے
لب ماضی کا دیر رس شیون
دین اور دھرم کی ہو خیر اپنے
یہ برہمن وہ شیخکِ پر فن
ہم قفس سے رہا ہوئے تو کیا
دل میں آباد ہے قفس کی گھٹن
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *