ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے

ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے
صحن میں دھوپ پھیل جاتی ہے
رنگ موسم ہے اور بادِ صبا
شہر کوچوں میں خاک اُڑاتی ہے
فرش پہ کاغذ پر اُڑتے پھرتے ہیں
میز پر گرد جمتی جاتی ہے
سوچتا ہوں کہ تیری یاد آخر
اب کسے رات بھر جگاتی ہے
میں بھی اِذنِ نوا گری چاہوں
بے دلی بھی تو لب ہلاتی ہے
سو گئے پیڑ جاگ اٹھی خوشبو
زندگی خواب کیوں دکھاتی ہے
اُس سراپا وفا کی فرقت میں
خواہشِ غیر کیوں ستاتی ہے
آپ اپنے سے ہم سخن رہنا
ہمنشیں! سانس پھول جاتی ہے
کیا ستم ہے کہ اب تیری صورت
غور کرنے پر یاد آتی ہے
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اِک چیز ٹوٹ جاتی ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *