پُر امیدی بحال مت کیجو

پُر امیدی بحال مت کیجو
تُو ہمارا خیال مت کیجو
ایک پل ہے کہ ہے ہمیشہ سے
گلہِ ماہ و سال مت کیجو
جان ہی چاہے دل کو دھوکا دے
کچھ بھی ہو، تو ملال مے کیجو
تُو خیالوں کو اور خوابوں کو
اپنے حق میں وبال مت کیجو
یہ دیار زوال ہے سو یہاں
جون کوئی کمال مت کیجو
میرے دل تجھ سے عرض یے میری
مجھ سے تُو کوئی چال مت کیجو
جب تلک زخم ہیں، سو رنگ بھی ہے
ہوس اندمال مت کیجو
رات بابا الف نے فرمایا
یاں کوئی بھی سوال مت کیجو
لال ہیں اس کے ہونٹ اور کتنے
تو انہیں اور لال مت کیجو
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *