ابھی خود خدا بھی لٹک رہا ہے

ابھی خود خدا بھی لٹک رہا ہے
ابھی بدنصیبی کی بحث جاری ہے زندگی کے نقیب پر
کبھی وقت، بنتا ہے عکس
کرتا ہے رقص روئے مہیب پر
کبھی دکھ کی لے پہ ٹھمک ٹھمک
کبھی مرگِ دل پہ تھِرَک تھِرَک
یونہی گرتا رہتا ہے تھک کے اپنے طبیب پر
ابھی سارا کچھ ہی سراب ہے
ابھی خود خدا بھی لٹک رہا ہے صلیب پر
کبھی پامال پال سنپولیے
کبھی مار مار سنپولیے
کبھی ڈال ڈال کے نعمتیں
کبھی ہار ہار کے بخششیں
کبھی بانٹ بانٹ کے رحمتیں
کبھی کانٹ چھانٹ کے زندگی
کبھی ڈانٹ ڈانٹ کے تیرگی
کبھی بول بول کے راستے
کبھی گھول گھول کے روشنی
کبھی تول تول کے گٹھ گناہ ثواب کے
کبھی کھول کھول کے روز نامچے ہر کسی کی کتاب کے
بڑا سٹپٹا سا گیا ہے خلقِ عجیب پر
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *