یہ شہر جو آباد تھا آباد نہیں ہے
شیریں کوئی آئے بھی تو دھوکے میں نہ رکھنا
کہہ دینا یہاں کوئی بھی فرہاد نہیں ہے
اس ملک کے مزدور کی آزادی نہ پوچھو
جس ملک کا سردار بھی آزاد نہیں ہے
دے آیا ہے دیوار کے سائے میں پناہیں
اور خوش ہے کہ دیوار کی بنیاد نہیں ہے
ہر شخص کے لب لوہے کی تاروں سے سلا کر
کہتا ہے کوئی مائلِ فریاد نہیں ہے
فرحت عباس شاہ