اس کے ملنے کی گھڑی رہتی ہے

اس کے ملنے کی گھڑی رہتی ہے
ہم کو وحشت ہی پڑی رہتی ہے
دل خیالوں میں گھرا رہتا ہے
آنکھ سوچوں میں پڑی رہتی ہے
رات ہارے ہوئے ساتھی کی طرح
میرے بستر پہ پڑی رہتی ہے
بدنصیبی کی طرح ہجرت بھی
میرے رستے میں کھڑی رہتی ہے
دن تو آ آ کے چلا جاتا ہے
شام رستے میں کھڑی رہتی ہے
یاد اک زرد نگینے کی طرح
دل کے ٹیکے میں جڑی رہتی ہے
میں مجاہد ہوں مگر یوں کہ مری
روح نیزوں میں گڑی رہتی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *