ہم کو تو گردش ِ حالات پہ رونا آیا

ہم کو تو گردش ِ حالات پہ رونا آیا
رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا
کیسےجیتےھیںیہ کس طرح جیےجاتےھیں
اہل دل کی بسر اوقات پہ رونا آیا
جی نہیں آپ سے کیا شکایت ہو گی
ہاں مجھے تلخی حالات پہ رونا آیا
حسن ِ مغرور کا یہ رنگ بھی دیکھا آخر
آخر اُن کو بھی کسی بات پہ رونا آیا
کیسےمرمر کےگزاری ہےتمہیںکیا معلوم
رات بھر تاروں بھری رات پہ رونا آیا
کتنےبیتاب تھےرم جھم میںپئیںگےلیکن
آئی برسات تو برسات پہ رونا آیا
حسن نے اپنی جفاوں پہ بہائے آنسو
عشق کو اپنی شکایات پہ رونا آیا
کتنےانجان ہیںکیا سادگی سےپوچھتےہیں
کہیے کیا میری کسی بات پہ رونا آیا
اول اول تو بس ایک آہ نکل جاتی تھی
آخر آخر تو ملاقات پہ رونا آیا
سیف یہ دن تو قیامت کی طرح گزرا ہے
جانے کیا بات تھی ہر بات پہ رونا آیا
سیف
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *