ان کو گر شب میں چمکنے کے کمال آتے ہیں

ان کو گر شب میں چمکنے کے کمال آتے ہیں
ہم بھی تاروں کی طرف درد اچھال آتے ہیں
جب فقیروں پہ ہنسا کرتے ہیں دنیا والے
ایسے موسم میں ہی قوموں پہ زوال آتے ہیں
ایک اک رات میں مشکل سے گزرتی ہے صدی
ایک اک پل میں سمٹ کر کئی سال آتے ہیں
عشق میں دوجے پہ کتنا ہی یقیں ہو پھر بھی
سو طرح کے دلِ بے کل میں سوال آتے ہیں
روز معمول ہے اپنا کہ کسی درد میں گم
ہم جفا کش تری گلیوں سے نڈھال آتے ہیں
شام کو لوٹ کے آتے ہوئے اب ہم اکثر
باتوں باتوں میں ترا درد بھی ٹال آتے ہیں
غیر کا کرتے ہوئے ذکر مجھے دیکھتے ہو
ایسی باتوں سے تو شیشوں میں بھی بال آتے ہیں
لاکھ گھمبیر مسائل سہی جیون کے مگر
ہم کو رہ رہ کے تمہارے ہی خیال آتے ہیں
روز ہی خالی پلٹتے ہوئے آبادی سے
ہم اسے اپنے تئیں دل سے نکال آتے ہیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *