ایک بجھتا ہوا دل۔۔۔۔

ایک بجھتا ہوا دل۔۔۔۔
ایک بے نام چراغ اور نحیف
جس قدر ورد کیا تھا اس نے
نور کی موج امڈ آتی تو پھر بھی کم تھی
جانے کس غم سے جگر زخم بنا
زخم نا سور ہوا
موت کی سمت وہ بڑھ جانا بہت تیزی سے
اور ترسنا کہ کہیں کوئی سہارا مل جائے
ڈوبتے وقت کنارا مل جائے
یہ جو سرطان کے دریا ہیں
کنارے نہیں ہوتے ان کے
یہ جو بہتے ہوئے زخموں سے پھسلنا ہے
سہارے نہیں ہوتے ان کے
بے بسی چھین لیا کرتی ہے جب آنسو بھی
تیزگی ماننا پڑ جاتی ہے
ہائے یہ دکھ کی اجارہ داری
کائناتوں کا پلٹ جانا مقدر کی صلیبوں کی طرح
اس قدر خالی گھٹا ٹوپ دکھوں کی رت میں
کون آتا ہے نصیبوں کی طرف
اور پھر یہ بھی کہ ہو منتظرِ دستِ شفا
ایک بے نام چراغ اور نحیف
کون آتا ہے غریبوں کی طرف
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *