جراتِ غم کا خوف بھی تو تھا

جراتِ غم کا خوف بھی تو تھا
جانے دل کو سزا ملے کیسی
عمر بے سائبانیوں میں کٹی
دھوپ سے زرد ہو گیا جیون
ڈس گیا ہجر دل کو ساون میں
درد سے رنگ پڑ گیا نیلا
تم تو ٹیلے نہ ہو سکے ثابت
ہم نے سمجھا پہاڑ راہ میں ہے
اشک سنولا گئے سدا کے لیے
شام آنکھوں میں آ کے بیٹھ گئی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس شامیں اجاڑ رستے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *