ایک وحشت سی طاری ہے ماحول پر ، آسماں زرد ہے

ایک وحشت سی طاری ہے ماحول پر ، آسماں زرد ہے
سبز موسم میں پیلے شجر دیکھ کر آسماں زرد ہے
آج خوشیاں منانے کا دن ہے یہ حاکم کا فرمان ہے
ہم یہ خوشیاں منا بھی رہے ہیں مگر آسماں زرد ہے
ایسا لگتا ہے منزل سے پہلے کوئی قافلہ لُٹ گیا
اے مسافر ذرا دیکھ تو اِک نظر آسماں زرد ہے
کل تو جنگل کے جل جانے کے سوگ میں آسماں زرد تھا
آج بستی کی ویرانیاں دیکھ کر آسماں زرد ہے
اس کو بے حس یا پتھر کا انسان ہونے کا طعنہ نہ دو
جس کی بینائی کم ہو اُسے کیا خبر آسماں زرد ہے
آسمانوں پہ رہ کے ہے ممکن زمینوں کا ڈھب دیکھنا
اے خدا! تو کسی دن زمیں پہ اُتر آسماں زرد ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – اول)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *