بچھڑ کر آزمانے آگئے ہیں

بچھڑ کر آزمانے آگئے ہیں
اسے کتنے بہانے آگئے ہیں
اداسی میں گھرے رہتے تھے جب ہم
وہ سارے دن پرانے آگئے ہیں
نہیں ہیں خوش گرا کر عرش سے بھی
زمیں سے بھی اٹھانے آگئے ہیں
وہ ہم پر مسکرانے آگئے ہیں
نیا اک غم لگانے آگئے ہیں
کسی کی موت کے آثار دل میں
صفِ ماتم بچھانے آگئے ہیں
بتا دو موسمِ گریہ کو فرحت
کہ ہم رونے رلانے آگئے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – چاند پر زور نہیں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *