بہت دن ہو گئے ہیں

بہت دن ہو گئے ہیں
بہت دن ہو گئے ہیں
آنسوؤں سے مل نہیں پائے
اُداسی درد کا نعم البدل ہو کر بھی کچھ ایسی نہیں ہوتی
زمانے بھر کی خوشیاں اور سکھ خود ساختہ حیرت کی مانند
کھوکھلے اور خالی ہوتے ہیں
تمہیں معلوم ہے فرحت؟
بہت ہنستے ہوئے دل میں کبھی جھانکا نہیں کرتے
یہ کن باتوں سے بچتے پھر رہے ہو آج کل
اور کس کو دھوکہ دے رہے ہو چین کی جھوٹی تسلی میں
بہت دن ہو گئے ہیں
دکھ سہیلی سے ملے بچھڑے
تمہیں کیا کچھ نہیں ہوتا کبھی
کچھ بھی نہیں ہوتا دکھوں سے اپنے دامن کو بچاتے
او مرے پاگل
مرے جھوٹے
مرے نادان
خوش خلقی ہمیشہ بوجھ ہوتی ہے
جو اپنے دل پہ آ پڑتا ہے اکثر لوٹ کر
اور زخم کر دیتا ہے ان دیکھا
بہت د ن ہو گئے ہیں ذات سے نکلے ہوئے تم کو
بتاؤ تو
کبھی واپس نہ آؤ گے
بہت دن ہو گئےہیں
کیا کبھی واپس نہ آؤ گے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اے عشق ہمیں آزاد کرو)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *