ایک بے جان وجود اور نڈھال روح

ایک بے جان وجود اور نڈھال روح
ایک بے تابی اور۔۔۔
پھر ایک بے چینی کا اضافہ
جیسے اسی بے قراری کی کمی تھی
جن لوگوں کی آنکھیں عزم بن جائیں
اور خواب ارادے ہو جائیں
اور خواہشیں کشتیاں جلا دیں
ان سے کوئی کہاں بھاگ سکتا ہے
اور پھر کہاں تک بھاگ سکتا ہے
یہ ٹھیک ہے کہ خوف بعض اوقات بھاگنے کی رفتار میں
بے پناہ اضافہ کر دیتا ہے
لیکن کبھی کبھی بے جان بھی تو کر دیتا ہے
بالکل بے جان اور نڈھال
اور ہم بھاگ تو کیا
چل بھی نہیں سکتے
بلکہ چلنا تو کیا
اپنے قدموں پر کھڑے ہی نہیں رہ سکتے
تمہاری آنکھوں
تمہارے خوابوں
اور تمہاری خواہش میں
جہاں جہاں میں ہوں
بھاگ پڑنے سے پہلے
خود کو تمہارے حوالے کرتا ہوں
ایک بے جان وجود
اور ایک نڈھال روح
اور ایک بکھری ہوئی ذات
تھوڑی کہیں اور تھوڑی کہیں
تھوڑی یہاں اور تھوڑی وہاں
تھوڑی ادھر اور تھوڑی ادھر
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *