بیتے ہیں عجب کشمکشِ ذات میں رستے

بیتے ہیں عجب کشمکشِ ذات میں رستے
پڑتا تھا قدم اور تو دل اور کہیں پر
ممکن ہی نہیں تھا کہ تری راہ سے ہٹتے
بس قافلہ والوں سے جدا ہوتے رہے ہیں
ہم اہلِ جنوں رکھتے ہیں کچھ اور عقیدہ
ہم عشق سمجھتے ہیں عبادات سے افضل
ہاں یہ ہے کہ ہم راہِ رگِ جاں پہ مسلسل
چلتے رہے اور درد سے آگے نکل آئے
ہستی کے بھی کچھ اپنے مسائل تھے مگر ہم
جس عالمِ لا ذات میں تھے اور ہی کچھ تھا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – محبت گمشدہ میری)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *