ترے وصال کے دریا کے پار سوکھ گیا

ترے وصال کے دریا کے پار سوکھ گیا
اداس تنہا شجر بار بار سوکھ گیا
میں باغ باغ میں پھرتا ہوں موت کا مارا
بہار رُت میں مرا غمگسار سوکھ گیا
ہرا نہ ہو گا کبھی دل کے درد کا دریا
جو بھول کر بھی اگر ایک بار سوکھ گیا
ہائے یہ شام مرے آنسوؤں سے بھیگ گئی
لبِ فرات ترا انتظار سوکھ گیا
نہ برگ و بار ہی آئے نہ بارشیں برسیں
خزاں نصیب دلِ بے قرار سوکھ گیا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *