تو اگر آئیو تو جائیو مت

تو اگر آئیو تو جائیو مت
اور اگر جائیو تو آئیو مت
پاسِ حالات ہے ضرور سو تو
مسکراؤ تو مسکرائیو مت
اک قیامت عذاب ہے یہ زمیں
تو اسے آسماں پہ ڈھائیو مت
جا رہے ہو تو جاؤ لیکن اب
یاد اپنی مجھے دلائیو مت
دل ہے خوابِ زمردینِ خیال
تو اسے اب کبھی جگائیو مت
ہے مرا یہ ترا پیالۂ ناف
اسے تو غیر کو پلائیو مت
گوشہ گیرِ غبارِ دشتِ اُمید
تو کبھی اپنا گھر بسائیو مت
میری تو خود تجھی سے دُوری ہے
سو، مجھ تو گلے لگائیو مت
شبِ ظلمانیءِ سَحَر ناپَید
مختصر داستاں سنائیو مت
یہ لَہو تُھوکنا ہے اِک پیشہ
کوئی پیشہ وَری دکھائیو مت
کیا بھلا جُز خیال ہیں ہم تم
مجھ سے اپنے کو تو چھڑائیو مت
جاودانی ہے بات لمحوں کی
تو مجھے روز روز بھائیو مت
دینِ دل میں جہاد ہے ممنوع
تو یونہی اپنا سر کٹائیو مت
ہیں یہ لمحات، جاوداں جانی
اپنی بے چینیاں دبائیو مت
شوق کا اک بجار ہوں میں تو
تم کبھی بھی مجھ سَدھائیو مت
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *