تمہیں یاد ہے؟

تمہیں یاد ہے؟
تمہیں یاد ہے
ہم دونوں آپس میں کتنا لڑتے تھے
میں تمہیں کہتا
اپنی آزادی سے ڈرا کرو
اور لوگوں کے چھپے ہوئے جبر سے
خوف کھایا کرو
میں تمہیں کہتا
سفر ایک ہی راستے پر اچھا لگتا ہے
بہت سارے راستوں پہ سفر
بھٹکنا بن جاتا ہے
میں تمہیں کہتا
روپ ایک ہی سجتا ہے
ورنہ بہروپ ہو جاتا ہے
میں تمہیں کہتا
موسم ایک ہی خوبصورت لگتا ہے
دھوپ اور بارش
بیک وقت پڑیں
تو زمین کُملائی لگتی ہے
میں تمہیں کہتا
موجود سے آگے بھی ایک وقت ہے
اور اگلے وقت سے آگے ایک اور وقت بھی ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *