تیرا ملنا کوئی آبادی سہی

تیرا ملنا کوئی آبادی سہی
اب بھی لگتا ہے یہی
عمر بے چین گزر جائے گی
بدنصیبی کوئی موسم نہیں ہوتی کہ گزر جائے کوئی مدت میں
ہر خوشی
ایک نئے دکھ کے اضافے کے سوا کچھ بھی نہیں
تیرے ملنے کی طرح
پھولوں کے کھلنے کی طرح
روشنی رات پکڑ لاتی ہے
بارشیں آنکھوں کو صحرا میں بدل دیتی ہیں
خوشبوئیں چھونے سے ڈر لگتا ہے
خواب تو اجڑے ہوئے شہر ہوا کرتے ہیں
کیسے کہہ دوں انہیں آنکھوں میں بسا لو گی تو اچھا ہو گا
خود مری آنکھوں میں کیا رنگ ہے زردی کے سوا
دل پہ گرتی ہوئی بے نور تمناؤں کی حالت کی قسم
میں تو خود تیری طرح
دل کے کرلاتے ہوئے گیت تلک ہوں محدود
میں تو خود قیدی ہوں ویرانی کا
تیرا ملنا کوئی آزادی سہی
تیرا ملنا کوئی آبادی سہی وقت کے ویرانے میں
دل پہ گرتی ہوئی بے نور تمناؤں کی حالت کی قسم
سکھ کی یہ رین گزر جائے گی
اب بھی لگتا ہے یہی
عمر بے چین گزر جائے گی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – کہاں ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *