جاگا جو مری ذات میں اک ذات کا جنگل

جاگا جو مری ذات میں اک ذات کا جنگل
پل بھر میں جاڑا مری اوقات کا جنگل
میں چاند مسافر کی طرح قید تھا اس میں
پھیلا تھا بہت دور تلک رات کا جنگل
کیا جانئے کس رستے سے دل پہنچے کسی تک
آنکھوں میں تو اک آیا ہے برسات کا جنگل
بیٹھا ہوں ترے ایک اشارے کے سہارے
رستہ ہی نہیں دیتا تری بات کا جنگل
ہارے ہوئے لشکر کو کبھی رہ نہیں دیتا
اس طور گھنا ہوتا ہے یہ مات کا جنگل
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اور تم آؤ)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *