چلی آئی آگ لپیٹ کر تری آرزو

چلی آئی آگ لپیٹ کر تری آرزو
چلی آئی آگ لپیٹ کر تری آرزو
مرے ماہ و سال جلا گئی
بڑی پیاس تھی سرِ دشتِ دل
سرِ ابرِ درد
بچا کھچا بھی رلا گئی
میں جلے ہوئے کسی دن کی گھاس پہ بیٹھ کر
ترے سوگ میں ہمہ وقت گنتا ہوں حادثے
بڑے چین سے
شبِ زرد آتی ہے صحن میں
جو ستارے چاند پہ بوجھ تھے
کسی آسمان کے پیر کے تلے آگئے
جو نشاں زمین پہ داغ تھے
کہیں دلدلوں میں سما گئے
جو پہاڑ تھا کسی انتظار کی راہ میں
وہ نہیں ہٹا
وہ کنواں جو روح میں بن گیا تھا ملال سے
وہ نہیں بھرا، وہ نہیں بھرا تو ستا گئی
کئی دیپ آ کے بجھا گئی
کئی تیر آ کے چلا گئی
چلی آئی آگ لپیٹ کر تری آرزو
مرے ماہ و سال جلا گئی
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *