خود ہی سمجھ سکو تو ہے کوئی تمہیں بتائے کیوں

خود ہی سمجھ سکو تو ہے کوئی تمہیں بتائے کیوں
ہونٹوں پہ قفل لگ چکے پھر بھی یہ ہائے ہائے کیوں
حیرت سے سوچتا ہوں میں جیون کے دشتِ خواب میں
سورج ابھی ڈھلا نہیں بڑھنے لگے ہیں سائے کیوں
تختِ خیالِ یار پر بیٹھے ہیں بادشاہ ہم
کس کی مجال اس قدر کوئی ہمیں اٹھائے کیوں
آنکھیں نہیں کہ دل نہیں، ہمت نہیں، کہ جاں نہیں
قسمت ہمارے ہاتھ سے آخر ہمیں چھڑائے کیوں
پوچھیں گے بار بار ہم چھیڑیں گے تار تار ہم
ہم سے ہماری داستاں آخر کوئی چھپائے کیوں
میری سنے، ہوا کی بھی، جیون کی بھی، اجل کی بھی
فرحت خدا کے سامنے دستِ دعا بڑھائے کیوں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *