ہجر کا چاند

ہجر کا چاند
درمیانی کسی ویرانی میں اُترا ہے ترے ہجر کا چاند
پار لگنے کا گلہ کیا کرنا
آنکھ اک درد سے ہٹتی ہے تو کتنے ہی نظر آتے ہیں
پاک دامن مری چاہت
کسی جنگل کو نکل جاتی تو اچھا ہوتا
جھاڑیاں اتنی بھی بے رحم نہیں ہوتیں
کہ روحوں پہ خراشیں ڈالیں
درمیانی کسی ویرانی میں اٹکا ہوا دل
لڑکھڑاتی ہوئی سانسوں سے دھکیلا نہ گیا
درمیانی کوئی ویرانی مخالف ہے مری
دیکھنا یہ ہے کہ اب روح کہاں جاتی ہے
ہجر کا چاند تو ویسے بھی جنازوں پہ سجا کرتا ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *