دشتِ خیال یار میں کھویا کریں گے ہم

دشتِ خیال یار میں کھویا کریں گے ہم
کس کو خبر تھی ٹوٹ کے رویا کریں گے ہم
آنکھوں کے بھی نصاب میں شامل نہ تھی یہ بات
اشکوں کے داغ اشکوں سے دھویا کریں گے ہم
غم بھی تو میری جان سمندر سے کم نہیں
جو چاہیں اپنے غم میں ڈبویا کریں گے ہم
لمحوں میں جیسے نیند کا موسم گزر گیا
اور ہم یہ سوچتے تھے کہ سویا کریں گے ہم
کچھ انتہا پسند ہیں بچھڑے تو اپنا دل
زخموں کی بارشوں میں بھگویا کریں گے ہم
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اور تم آؤ)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *