بے نور ہوں کہ شمع سر رہ گزر میں ہوں

بے نور ہوں کہ شمع سر رہ گزر میں ہوں
بے رنگ ہوں کہ گردش خون جگر میں ہوں

اندھا ہوں یوں کہ کور نگاہوں میں رہ سکوں
بہرہ ہوں یوں کہ قصّۂ نامعتبر میں ہوں

ذرّے جوان ہو کے افق تک پہنچ گئے
میں اتنے ماہ و سال سے بطن گہر میں ہوں

مستقبل بعید کی آنکھوں کی روشنی
اوروں میں ہوں نہ ہوں مگر اپنی نظر میں ہوں

لاکھوں شہادتوں نے مجھے واسطے دیے
میں شب گزیدہ پھر بھی تلاش سحر میں ہوں

سفّاک بچپنوں کا کھلونا بنا ہوا
دنیاکی زد میں پنجۂ شمس و قمر میں ہوں

میں جنگلوں کی رات سے تو بچ کے آ گیا
اب کیا کروں کہ وادی نوع بشر میں ہوں

جی چاہتاہے مثل ضیا تجھ سے مل سکوں
مجبور ہوں کہ محبس دیوار و در میں ہوں

میں ہم نشین خلوت شہناز لالہ رخ
میں گرمی پسینۂ اہل ہنر میں ہوں

خوابوں کے رہ رو مجھے پہچاننے کے بعد
آواز دو کہ اصل میں ہوں یا خبر میں ہوں

اتنی تو دور منزل وارفتگاں نہ تھی
کن راستوں پہ ہوں کہ ابھی تک سفر میں ہوں

کیسا حصار ہے جو مجھے چھوڑتا نہیں
میں کس طلسم ہوش ربا کے اثر میں ہوں

زنداں میں ہوں کہ اپنے وطن کی فصیل میں
عزّت سے ہوں کہ جسم فروشوں کے گھر میں ہوں

مصطفی زیدی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *