عشق کے ساتھ جدائی بھی لگی رہتی ہے

عشق کے ساتھ جدائی بھی لگی رہتی ہے
چاند کے ساتھ سمندر بھی سفر کرتا ہے
ہم تجھے چاہنے نکلے تو محبت کے سمندر بھی بہت دور تلک ساتھ چلے
کائناتوں کا تعلق ہے بہت آپس میں
خواہشیں خاک پہ کرتی ہیں اثر
اور دعائیں بھی بہت دستکیں دیتی ہیں
ہواؤں کی طرح
ہم ہواؤں میں تجھے چھوتے ہیں
ہم فضاؤں میں تجھے چومتے ہیں
ہم خلاؤں میں تجھے دیکھتے ہیں
ہم تو خود اپنے بھی اندر تجھے کرتے ہیں بہت ہی محسوس
جب سے ہم دکھ کی ریاضت کے خطا وار ہوئے
یہ ریاضت بھی تو دیتی ہے جواب
ایک خلقت کہ ہمیں ڈھونڈتی ہے
ایک اداسی کہ ہمیں پوجتی ہے
اور کوئی سکھ ہمیں چھوتے ہوئے ڈر جاتا ہے
رات کے ساتھ بیابان بھی چل پڑتے ہیں
دشت میں ہجر کے آسیب نکل پڑتے ہیں
وصل سے وصل کی مانند یہاں
ہجر سے ہجر جڑا رہتا ہے
منسلک ہے یہاں ہر شے سے ہر اک دوسری شے
ہم تجھے چاہنے نکلے تو محبت کے سمندر بھی
بہت دور تلک ساتھ چلے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *