کاٹی وہ جو ہجراں میں ریاضت نہیں جاتی

کاٹی وہ جو ہجراں میں ریاضت نہیں جاتی
بے چین لب و لہجے کی عادت نہیں جاتی
رستوں سے تو میں خود کو چھڑا لایا ہوں لیکن
پیروں سے جو لپٹی ہے مسافت نہیں جاتی
خوشیوں کا سمندر بھی میسر ہو تو پھر بھی
افسردہ خیالات کی خصلت نہیں جاتی
خود سوزی کی کوشش سے یہ معلوم ہوا ہے
یہ سانس تو جاتی ہے محبت نہیں جاتی
کھل کر نہ برستا ہے نہ چھٹتا ہے یہ بادل
آنکھوں کی ترے غم سے شکایت نہیں جاتی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – تیرے کچھ خواب)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *