کر رہا تھا جو انتشار طویل

کر رہا تھا جو انتشار طویل
چاہتا ہوگا اختیار طویل
جنگ سے کرکے مجھ کو خوفزدہ
اس کو کرنا ہے اقتدار طویل
میں نے انصاف کی تمنا کی
ہوگیا میرا انتظار طویل
تم نہیں آئے اور اسی دن سے
ہو گئی شام بے قرار طویل
ایک تو درد سے بھری ہے اور
ہوتی جاتی ہے بار بار طویل
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *