مجھے دو پرندے پسند ہیں

مجھے دو پرندے پسند ہیں
مجھے مل گیا
مجھے مل گیا
تو کہاں تھا شہر سراب میں
کسی خواب میں بھی نہیں تھا میرے نصاب میں
کہ تو یوں اچانک و بے محل
مجھے آ ملے گا کسی لباس کی اوٹ میں
ابھی پہن لوں تو کہیں تو اس سے نکل کے اُڑ ہی نہ جائے دور
سحاب میں
تری آندھیوں نے بہت اڑایا ہے بے لباس مجھے تمہاری گلی گلی
تجھے آؤ اپنی کمر سے کس کے میں باندھ لوں
تجھے خوب اچھی طرح سے خوب سمیٹ لوں
ترے پہلوئے طرح دار میں ذرا تھوڑی دیر کو لیٹ لوں
مجھے دو پرندے پسند ہیں
وہی دو جو مل کے اڑیں ہمیشہ ہجوم میں
وہی دو جو مل کے رہیں جدائی کے ریگزار کی دھوپ میں
وہ جو زرد رنگ درخت ہے
وہی میں نہیں
وہ جو لال رنگ درخت ہے
وہی تو نہیں
مرے اپنے ہاتھ میں ہاتھ دو تو میں خوش رہوں
مجھے دو پرندے پسند ہیں
مرا ایسے وقت میں ساتھ دو تو میں خوش رہوں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *