میں نے یہ بھی کہا تو

میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
گر اجالوں میں آنکھ لگ جائے
پھر اندھیرے بہت ستاتے ہیں
میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
جسم جب دل کے ساتھ مل جائے
روح سے روح مل نہیں سکتی
میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
خواب دن میں اگر سجائیں تو
رات کو نیند روٹھ جاتی ہے
میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
گر اُداسی سوال کر لے تو
آنکھ رو کر جواب دیتی ہے
میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
ایک ہی نام گر لیا جائے
پھر کئی درد آن مِلتے ہیں
میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
چھوڑ جانے کا حوصلہ ہو تو
روٹھ جانے کی حد نہیں ہوتی
میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
گر کوئی شہر چھوڑ جائے تو
سوگ کرتی ہیں رات بھر گلیاں
میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
کوئی آنکھوں میں آن ٹھہرے تو
نیند آنکھوں سے دور رہتی ہے
میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
ہجر والے کمال کرتے ہیں
شہر والے سوال کرتے ہیں
میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
جب پرندے اداس ہو جائیں
پیڑ خاموش ہو ہی جاتے ہیں
میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
درد نبضیں اُدھیڑ کر رکھ دے
ضبط کو راستہ نہیں ملتا
میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
دل اگر رو پڑے تو چپ رہنا
آنکھ کی بات اور ہوتی ہے
میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
پھیل جائے اگر خیال کا دُکھ
یاد کرنا کسی سوال کا دُکھ
میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
تم اگر مجھ سے ملنے آؤ تو
واپسی کا خیال مت لانا
میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
ایک لمحہ وصال ممکن ہو
ہجر کا بھی خیال مت لانا
میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
تم تو خود لاجواب ہو، دیکھو
ساتھ کوئی سوال مت لانا
میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
میں ابھی درد کے عروج پہ ہوں
تم بھی اس کا زوال مت لانا
میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
میرے اور اپنے درمیان کبھی
دوسری کوئی بات مت لانا
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *