محبت کا سفر کیسا لگا ہے

محبت کا سفر کیسا لگا ہے
یہ جذبوں کا بھنور کیسا لگا ہے
بسے ہو دل میں تو یہ بھی بتاؤ
یہ غیر آباد گھر کیسا لگا ہے
یہی شکوہ تھا نا تم کو کہو اب
دِوانہ چشمِ تر کیسا لگا ہے
گلی کی رونقوں کے درمیاں میں
مرا سنسان در کیسا لگا ہے
مری تو روح تک گھائل ہوئی ہے
تمہیں اجڑا نگر کیسا لگا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *