میں سناتا ہوں کہانی موت کی

میں سناتا ہوں کہانی موت کی
میں نے دیکھی ہے جوانی موت کی
سیدھا ہو جاتا ہے دل کے آر پار
ہجر بھی تو ہے نشانی موت کی
باقی سب کچھ دیکھ لیتا ہوں مگر
عشق اور اک ناگہانی موت کی
اور اک شکوہ سلانا ہے وہاں
میں نے اک صف ہے بچھانی موت کی
ہر طرف لاشیں ہی لاشیں ہیں یہاں
ہر طرف رُت ہے سہانی موت کی
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *