نیو کیمپس

نیو کیمپس
نہر کے کنارے پر
شام سے ذرا پہلے
تتلیاں بکھرتی ہیں
خوشبوؤں کی لہروں میں
ڈوبتی اُبھرتی ہیں
آتے جاتے پھولوں کو
چھیڑ کر گزرتی ہیں
اور اپنی آنکھوں سے
جگنوؤں کی آنکھوں میں
راستے بناتی ہیں
روح میں اترتی ہیں
——
نہر کے کنارے پر
تتلیوں کے خیموں کے
ارد گرد دیوانے
پنچھیوں کی پروازیں
چھو کے گدگدا جاتی
شوخ وشنگ آوازیں
کتنی پیاری لگتی ہیں
۔۔۔۔۔۔
نہر کے کنارے پر
اک کنارہ ایسا ہے
جس جگہ اکیلے میں
بے زبان پیڑوں کے
آسروں سے لگ لگ کر
یاد بین کرتی ہے
آس ڈگمگاتی ہے
خامشی کے صدمے سے
سانس لڑکھڑاتی ہے
بار بار گھبرا کر
ڈوب ڈوب جاتی ہے
جان! اس کنارے پر
آنکھ کا کنارا ہے
وحشتوں کا دھارا ہے
زرد زرد پتے ہیں
سرد سرد جھونکے ہیں
کوئی بے سہارا ہے
نہر کے کنارے پر
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – اول)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *