ہنستا ہوا باغ

ہنستا ہوا باغ
روتے ہوئے دل کی صدی
تمہارا ملنا بھی خوب ہے اور نہ ملنا بھی
ایک غم آلود خوشی
اور ہنستا مسکراتا دکھ
جیسے کسی نے راستہ دکھلا کے پاؤں باندھ دیے ہوں
یا جیسے کسی نے پر کاٹ کے پنجرے کا دروازہ کھول دیا ہو
ملتے ہو اور شہر اداس کر جاتے ہو
شہر بھی عجیب ہے
خوشی سے رو دیتا ہے
اور دکھ سے ہنس پڑتا ہے
بالکل میرے دل کے شہر کی طرح
روتا ہے تو گھڑیاں ٹھہر جاتی ہیں
ہنستا ہے تو صدیاں اڑنے لگتی ہیں
تمہارے ملنے اور نہ ملنے کی طرح
میرے رونے اور ہنس پڑنے کی طرح
بے یقینی کے سُکھ اور بے چینی کی حیرت کی طرح
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *