وقت کا بے سکوں گہر اور میں

وقت کا بے سکوں گہر اور میں
شہر ویران و بے خبر اور میں
گھومتے پھر رہے ہیں صدیوں سے
بے قراری، ترا سفر اور میں
روتے ہیں تیرے بن گلے لگ کر
میرا اجڑا ہوا نگر اور میں
لگ کے دیوار و دل سے بیٹھے ہیں
منتظر بے قرار در اور میں
اب تو گھل مل گئے ہیں آپس میں
ناگہانی تمہارا ڈر اور میں
وہ تو کہتا ہے اتنے دور نہیں
میرا بندہ مرا بشر اور میں
وقت کے سکھ پہ مسکراتے ہیں
یہ مری عمر مختصر اور میں
دشت میں دور تک اکیلے ہیں
غم کا پھیلا ہوا شجر اور میں
دونوں اندر سے ملتے جلتے ہیں
اے محبت ترا اثر اور میں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس اداس)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *