جدائی کے بعد پہلی نظم

جدائی کے بعد پہلی نظم
شفق روئی ہوئی آنکھوں کی مانند
ستارے مجھ کو آنسو دِکھ رہے ہیں
مجھے اِن پتیوں کی سرسراہٹ
دبی آہوں کی مانند لگ رہی ہے
پرندے بولتے ہیں تو!
مجھے لگتا ہے کہ جیسے
یہ سارے بین کرتے ہوں
میں مرجھائی ہوئی‘ نوچی ہوئی
کلیوں کو تکتا ہوں
تو لگتا ہے کہ جیسے غم میں ڈوبی ہوئی
مجھے اس دم کھلی کلیاں
یوں لگتی ہیں!
کہ جیسے ان کی بے بس زندگی پر مسکراتی ہوں
نجانے کیوں؟
مری آنکھوں کو ہر منظر بہت تاریک لگتا ہے
مجھے سب غم تو دکھتے ہیں
مگر خوشیوں بھرے موسم
نجانے کیوں نہیں دکھتے
نجانے وہ شفق‘ وہ چاند تارے
پھول اور کلیاں
جو ان خوشیوں بھرے سب موسموں میں
روشنی کے استعارے تھے
کہاں پر چھپ کے بیٹھے ہیں
دکھائی کیوں نہیں دیتے
پرندے چہچہاتے ہیں
یا پتے سرسراتے ہیں
تو وہ نغمے!
جو ان خوشیوں بھرے سب موسموں کی
گونج ہوتے تھے
کہاں پر کھو گئے ہیں
سنائی کیوں نہیں دیتے
نجانے کیوں
مری آنکھوں کو ہر منظر
بہت تاریک لگتا ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *