آگ جب تک جلے نہ جانوں میں

آگ جب تک جلے نہ جانوں میں
آنچ ڈھلتی نہیں ترانوں میں
وعدہ یار جاں فزا ہے مگر
پھول کھلتے نہیں چٹانوں میں
خواب کے نرم تار کیا ٹوٹے
تیر بھی مڑ گئے کمانوں میں
آدمی بھی تو کیڑیوں کی طرح
بٹ گئے تنگ تنگ خانوں میں
نسل نو کو سدھار نے کے لیے
مدرسے کھل گئے ہیں تھانوں میں
لوگ اب یوں گھروں میں رہتے ہیں
جس طرح بوتلیں دکانوں میں
پیر صاحب کی گفتگو سن لی
کچھ زمینوں ‘ کچھ آسمانوں میں
دوستوں کی منافقت ‘جیسے
کوکو کولا۔۔۔۔۔۔۔۔ شراب خانوں میں
ہم نے دیکھا ضمیر صاحب کو
سر کشیدہ تھے درمیانوں میں
سید ضمیر جعفری
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *