سب مِرے دوست، سب مِرے غم

سب مِرے دوست، سب مِرے غم خوار
اپنے مطلب تلک ہیں سارے یار
میں تو اب سب سے ہو چکا مایوس
جیسی دنیا ہے، ویسے دنیا دار!
زندگی کا بدل چکا مفہوم
پھر بھی ہے تجھ کو زندگی درکار؟
لے ترے سامنے ہوں‘ دیکھ مجھے
کیا تجھے اب بھی ہے مرا انکار؟
بھائیو! آؤ خون کرتے ہیں
اپنا اپنا نبھائیے کردار
اے مرے علم! میں تو بھوکا مَرا
تُو مرے واسطے رہا بے کار
میں تو بس خام لکھ رہا ہوں وقارؔ
کیا مری بات، کیا مرا معیار!
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *