کھا رہا ہے یقیں کو عجب

کھا رہا ہے یقیں کو عجب سا گماں، بولتے کیوں نہیں؟
جل رہا ہے یہ دل اُٹھ رہا ہے دھواں، بولتے کیوں نہیں؟
اِ ک سوالی تھا، شب بھر سخی کا جو در کھٹکھٹاتا رہا
اور کہتا رہا صاحبِ آستاں، بولتے کیوں نہیں؟
اک زمانہ تھا سر پہ اٹھاتے تھے اور چومتے تھے قدم
اب تمہاری حمایت میں وہ آسماں، بولتے کیوں نہیں؟
کب تلک شہر والوں کے، میں ان سوالوں سے تنہا لڑوں؟
کس لیے چپ کھڑے ہو یہ تم میری جاں، بولتے کیوں نہیں؟
وہ جو میرے لیے اپنا سب کچھ لٹانے کو تیار تھے
اب کہاں ہیں سبھی وہ مرے مہرباں، بولتے کیوں نہیں؟
لوگ پیروں تلے روند دیتے ہیں اور دیکھتے بھی نہیں
زینؔ جی بولنا ہو جہاں تم وہاں، بولتے کیوں نہیں؟
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *