جاری ہے نالہ و فغاں ہائے

جاری ہے نالہ و فغاں ہائے
از زمیں تا بہ آسماں‘ ہائے
وہ جہاں محفلیں سجا کرتیں
اُٹھ رہا ہے وہاں دھواں‘ ہائے
ہائے وہ لوگ ‘ وہ قدآور لوگ
مٹ گیا اُن کا بھی نشاں ‘ ہائے
اچھا تھا اپنا ہی نہ مانتے وہ
چھوڑتے پر نہ درمیاں‘ ہائے
جسم تو وصل کی ہوس میں گیا
روح کا خود کیا زیاں‘ ہائے
آنکھ ہے نَم اور اُس نمی میں عیاں
تیری تصویر ‘ جانِ جاں! ہائے
میں تو خود ہی رہا تنِ تنہا
مجھ میں بستا رہا زماں‘ ہائے
کل تلک تُو وقارؔ کیا کچھ تھا
اور تُو آج ہے کہاں‘ ہائے!
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *