پل بھر کی وصل رات سے

پل بھر کی وصل رات سے نکلے نہیں ہیں ہم
اُن کی نوازشات سے نکلے نہیں ہیں ہم
کیونکر بُجھا دیا گیا ہے آفتاب کو
کیونکر اندھیری رات سے نکلے نہیں ہیں ہم
سب کچھ لٹا چکے ہیں اناؤں کے کھیل میں
اور پھر بھی سحرِ ذات سے نکلے نہیں ہیں ہم
اوروں کی خواہشات کو پورا کریں تو کیا
اپنی ہی خواہشات سے نکلے نہیں ہیں ہم
ہم نے وقارؔ بارہا مقتل کا رُخ کیا
پھر بھی غمِ حیات سے نکلے نہیں ہیں ہم
*
آ کے سینے سے کیوں نہیں لگتے
یار کیا ایسے یار ہوتے ہیں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *