وہ عورت تھی

وہ عورت تھی
________ خلا کی مشکلات اپنی جگہ قائم تھیں اور دنیا
اُجڑتی، بھُربھری، بنجر زمینوں کی نشانی تھی
ستارے سرخ تھے اور چاند سورج پر اندھیروں کا بسیرا تھا
درختوں پر پرندوں کی جگہ ویرانیوں کے گھونسلے ہوتے
زمیں کی کوکھ میں بس تھور تھا اور خار اُگتے تھے
ہوا کو سانس لینے میں بہت دشواریاں ہوتیں
تو پھر اُس نور والے نے کوئی ’’ لوحِ اِنارہ‘ ‘ بھیج دی شاید
اندھیرے روشنی پہ کس طرح ایمان لے آئے
بَلائیں کس طرح پَریوں کی صورت میں چلی آئیں
یہ کس ’’نورل ثوَیبا‘‘ کی خدا تخلیق کر بیٹھا
یہ نرمی، دلبری، شرم و حیا تخلیق کر بیٹھا
وہ ’’ نورل‘‘ وہ ’’ثوَیبا‘‘ جس کی خاطر آسماں سے رنگ اُترے تھے
وہ جس کے دم سے دنیا پر نزاکت کا وجود آیا
خدائے خلق نے ’’ نورل‘‘ سے پہلے ہی ہوس تخلیق کر دی تھی
نزاکت تک ہوس کی دسترس تخلیق کر دی تھی
ہزاروں سال گزرے ہیں‘ مگر فطرت نہیں بدلی
نگاہیں اب بھی بھوکی ہیں کہ جیسے کھا ہی جائیں گی
ہوس زادوں نے کیسے نور سے منہ پر مَلی کالک
ہر اک رشتہ ضرورت کے مطابق کس لئے بدلا
ہوس زادو! بدن خورو! ذرا سی شرم فرماؤ
وہ ’’ نورل‘‘ وہ ’’ثوَیبا‘‘ روشنی کا استعارہ تھی
کبھی حوا، کبھی مریم، کبھی ’’ لوحِ اِنارہ ‘‘ تھی
وہ عورت تھی __________
*نورل : روشنی
*ثوَیبا: بہترین انعام
*انارہ: چمکتی ہوئی روشنی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *