نذرِ جون ایلیا

نذرِ جون ایلیا
اب تو جہانِ لطف سے رشتہ بحال بھی نہیں
خوفِ فراق بھی نہیں، شوقِ وصال بھی نہیں
میرے وجودِ خاک کو‘ تیری ہوس نہیں رہی
میرا شعورِ قرب اب‘ رُو بہ زوال بھی نہیں
تُو بھی مرے بغیر خوش، میں بھی ہوں سانس لے رہا
تیری مثال بھی نہیں، میری مثال بھی نہیں
اُن کی نگاہِ تیز سے، میری نگاہ جا ملے
اتنی مجال بھی نہیں، لیکن محال بھی نہیں
جاناں! تمہاری یاد کے زخموں کی بات کیا کروں
ویسے وبال ہیں وہ زخم، اتنے وبال بھی نہیں
میں نے وقارؔ جو پیا‘ لگتا ہے جامِ زیست تھا
مجھ کو تو ہوش بھی نہیں، اور میں نڈھال بھی نہیں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *