شب وعدہ ہے تو ہے اور میں ہوں

شب وعدہ ہے تو ہے اور میں ہوں
ہجوم آرزو ہے اور میں ہوں

دل بیگانہ خو ہے اور میں ہوں
بغل میں اک عدو ہے اور میں ہوں

مٹاتا ہی رہا جس کو مقدر
وہ میری آرزو ہے اور میں ہوں

پریشاں خاطری کہتی ہے اپنی
کسی کی جستجو ہے اور میں ہوں

شب تنہائی فرقت میں دل سے
کچھ اس کی گفتگو ہے اور میں ہوں

گلستان جہاں ہے قابل سیر
طلسم رنگ و بو ہے اور میں ہوں

نگاہ لطف دلبر کا ہے اظہار
پھٹے دل کا رفو ہے اور میں ہوں

کہیں چھوڑا اگر قاتل کا دامن
تو پھر میرا لہو ہے اور میں ہوں

جلال اس کو بنایا اس نے دشمن
قیامت میں عدو ہے اور میں ہوں

جلال لکھنوی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *