ہو گئی ہے فدا موت پر زندگی
خوف و دہشت سے ہے بے خبر زندگی
ہے تِری راہ میں کوئی تیرا عدو
اس سے رہنا سدا با خبر زندگی
جھلکیاں تیری ہر انگ میں ہیں مگر
اس مجسّم میں ہے تو کدھر زندگی؟
عقل والوں نے دوڑائے اسپِ خرد
رہ گئی اِک پہیلی مگر زندگی
زندگی سے ہزاروں ہیں شکوے گلے
پھر بھی محبوب ہے کس قدر زندگی!
دے کے پرواز کی اُس نے قوّت تجھے
کاٹ ڈالے تِرے بال و پر زندگی
موت کو دیکھ کر وہ بھی مرنے لگا
جس نے کی تھی بسر بے خطر زندگی
کس کو معلوم کس روز سو جائے گی
موت کی گود میں رکھ کے سر زندگی
غیر ممکن ہے راغبؔ منا لے کوئی
روٹھ جائے کسی سے اگر زندگی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: لفظوں میں احساس