زندگی تجھ کو یہ

غزل
زندگی تجھ کو یہ سوجھی ہے شرارت کیسی
دیکھ گزری ہے مِرے دل پہ قیامت کیسی
اپنے پتّوں سے درختوں کو شکایت کیسی
’’ساتھ جب چھوڑ دیا ہے تو وضاحت کیسی‘‘
مجھ سے مت پوچھ مِری جان مِرے دل سے پوچھ
میں نے فرقت میں اُٹھائی ہے اذیّت کیسی
کوئی کب تک کرے برداشت، زباں بند رکھے
ہو گئی ہے گل و گل زار کی حالت کیسی
درد خوش بو سے معطّر ہے مِری دل دنیا
تیری الفت نے بدل دی مِری قسمت کیسی
دوڑتے پھرتے ہیں صحرا میں بگولوں کی طرح
کیا بتائیں کہ ہماری ہے طبیعت کیسی
لوگ ظاہر پہ بھی کر لیں گے بھروسا پھر بھی
دیکھ لیں آپ کہ ہے آپ کی نیّت کیسی
میں نے کب مانگا ہے تجھ سے تِری چاہت کا ثبوت
گر محبّت نہیں مجھ سے تو شکایت کیسی
جی رہا ہوں تِری یادوں کے سہارے لیکن
رفتہ رفتہ مِری اب ہوگئی حالت کیسی
ہوتی ہی رہتی ہے اشعار کی بارش راغبؔ
موسمِ ہجر کی مجھ پر ہے عنایت کیسی
دسمبر ۲۰۱۰ء طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *